Sunday 15 October 2017

ملک ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلتا ہے


web monitoring desk:

حالات شاندار ہیں۔ ملٹی سکرین کمپلیکس میں ہر شو ہاؤس فل، ہر کہانی ایکشن تھرلر سسپنس۔ تھیٹر نمبر ون میں امریکہ، افغانستان اور بھارت بمقابلہ پاکستان، تھیٹر نمبر ٹو میں دہشت گردی بمقابلہ پاکستانی ریاست، تھیٹر نمبر تین میں نواز شریف و عمران خان بمقابلہ عدلیہ، تھیٹر نمبر چار میں آئی ایس پی آر، تحریکِ انصاف، الیکٹرونک میڈیا بمقابلہ خاقان حکومت و ہمنوا، تھیٹر نمبر پانچ میں حزبِ اختلاف بمقابلہ حزبِ اختلاف اور تھیٹر نمبر چھ میں شریف خاندان بمقابلہ شریف خاندان و نثار علی وغیرہ۔
ہر کہانی میں کوئی موڑ اگرچہ کسی کردار سے پوشیدہ بھی نہیں مگر کسی کردار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلا موڑ کون سا ہے۔ ہر کردار سب کچھ اور سب کو جاننے کا دعویدار ہے مگر کوئی کردار خود کو نہیں جانتا۔
ایڈیٹنگ ایسی کمال کہ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس سین میں کون کب ولن سے ہیرو اور پھر کامیڈین بن کے دوبارہ ولن یا ہیرو کا روپ دھار لے۔
کوریو گرافی اتنی شاندار کہ کسی بھی آئٹم سانگ میں مرکزی کردار اچانک سے ایکسٹرا بن جاتے ہیں اور ایکسٹرا سب کچھ پھلانگتے ہوئے مرکزی کرداروں میں تبدیل ہو کر پھر ایکسٹرا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔
یہ ایک ایسی ریاست کی تھرلر فلم ہے جو بیک وقت خود سے اور دنیا سے نبرد آزما ہے۔ حسن انتظام اس قدر انہونا کہ ایک ہی کردار دو دو تین تین اداکار نبھا رہے ہیں۔ مثلاً آئی ایس پی آر کے پاس خارجہ، خزانہ داخلہ و مداخلہ کے قلمدان ہیں، وزیرِ داخلہ عملاً وزیرِ ڈانٹ ڈپٹ و احتجاج میں بدل چکے ہیں۔
ایجنسیاں جعفر جن بنی ہوئی ہیں۔ ہر چند کہ ہیں پر نہیں ہیں۔
وزیرِ خارجہ امریکی ڈیسک بجا رہے ہیں اور سپاہ سالار بھارت، افغان، ایران ڈیسک کے معائنے پر ہیں۔ اس بیچ دفترِ خارجہ اس ٹینس میچ کا وہ بے بس امپائر ہے جو کبھی گردن شمالاً گھماتا ہے کبھی جنوباً۔
سنا ہے معیشت بھی قسمت کی طرح اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ مگر وزیرِ خزانہ کو نہیں معلوم کہ کل عدالت میں پیش ہونا ہے یا عالمی بینک کے روبرو۔
اور کیا چاہیے؟ تین تین قائدِ حزبِ اختلاف ہیں ( خورشید شاہ، عمران خان اور نواز شریف)۔
عدلیہ اپنا کام بھی کر رہی ہے اور احتسابی اداروں کی بے بی سٹنگ کا بوجھ بھی کاندھوں پر ہے۔
الیکشن کمیشن ہر صبح کام شروع کرنے سے پہلے فال نکالتا ہے کہ آج وہ کتنا بے بس اور کتنا بااختیار ہے۔
پارلیمنٹ جتنی آزاد و خود مختار اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ کس رکنِ اسمبلی کو کب کس اجلاس میں کتنی دیر کے لیے شریک ہونا ہے، کس بل کو پڑھے بغیر منظور کروانے کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے اور کب کسی اہم بل کو پڑھے بغیر مسترد کرنا ہے اور اپنے ہی منظور کردہ بل کی کیوں مخالفت کرنی ہے، فلور پر تقریر کرتے ہوئے کس درجے کی زبان استعمال ہو گی۔ یہ تمام امور ہر رکنِ اسمبلی خود طے کر رہا ہے۔

نوبت بہ ایں جا رسید کہ چیرمین سینیٹ کو بھی احتجاجاً اپنے ہی ایوان سے واک آؤٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اسپیکر کی بس اتنی چل رہی ہے جتنی مادام تساؤ کے عجائب گھر میں کھڑے کسی مومی مجسمے کی۔
پر خدا کا شکر ہے کہ ان تمام کرداروں کو قومی و عوامی مفاد جان سے زیادہ عزیز ہے، کسی کو ہوسِ اقتدار نہیں، ہر کوئی ریاست اور اس کے انتظام کے بارے میں فکر مند ہے، ہر کوئی شاندار مستقبل کا خواہاں ہے اور ہر کوئی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔
ان سب کرداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ بھی گذارہ نہیں اور ایک دوسرے کے بغیر بھی گذارہ نہیں۔
ویسے تو یہ حالات ایک دن میں معمول پر آ سکتے ہیں اگر صرف ایک اجتماعی عہد کر لیا جائے کہ اس ملک کو ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلانا ہے۔
مگر حالات اگر خدانخواستہ معمول پر آ گئے تو روزِ حشر اقبال کو کیا منہ دکھائیں گے۔
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

فوج نے میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنایا



web monitoring desk:
کینیڈین شہری جوشوا بوئل کے مطابق انھوں نے کینیڈا، امریکہ میں کئی ایسے آپریشن دیکھے ہیں جنھیں بہت برے انداز میں مکمل کیا گیا اور پیشہ وارانہ انداز میں ہینڈل نہیں کیا گیا لیکن یہ( پاکستانی فوج کا آپریشن) بہت ہی اعلیٰ انداز میں کیا گیا اور یہ نہایت پروفیشنل تھا۔
جوشوا بوئل کے مطابق بازیابی کے آپریشن میں میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا اور معاملات کو ٹھیک رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدمات کیے گئے جس میں آئی ایس آئی اور فوج مجرمان اور ہماری گاڑی کے درمیان آ گئی تاکہ میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

نہ ریپ کیا نہ ہی بچی کو مارا، طالبان کی تردید


web monitoring desk:
افغان طالبان نے پاکستان میں شدت پسندوں کے قبضے سے بازیاب کروائے گئے کینیڈین شہری جوشوا بوئل کے اس بیان کی تردید کی ہے کہ اغوا کے دوران اُن کی بیوی کو ریپ کیا گیا اور ایک بیٹی کو قتل کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے جوشوا بوئل کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مغربی حکومتوں کا پروپیگنڈا ہے۔
غیر ملکی خاندان کی بازیابی:’اسی تعاون کی توقع رکھیں گے‘
بالآخر امریکی مغوی کولمین کا ’ڈراؤنا خواب‘ ختم
مغویوں کی رہائی میں پاکستانی کردار’اچھے مستقبل کی نوید‘
میڈیا کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے 'ہم کینیڈین خاندان کی جانب سے لگائے گئے جعلی اور من گھڑت الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں جو اب دشمنوں کے پاس ہے۔'
بیان میں ذبیع اللہ مجاہد نے کہا 'جو بیان دشمن اس خاندان سے دلوانا چاہتے ہیں وہ وہی بیان دیں گے۔'
افغان طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ جوشوا اور ان کی اہلیہ کو دانستہ طور پر علیحدہ نہیں کیا گیا تھا تاکہ ان وہ محفوظ رہیں۔

Saturday 14 October 2017

خدا کا شکر ہے ایشوریہ بچ گئیں



web monitoring desk :

ہالی وڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائن سٹین آج کل سرخیوں میں ہیں ان کے خلاف ہالی وڈ کی کئی معروف اداکاراؤں نے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے ہیں جس کے بعد وہ خاصی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔
امریکی اداکارہ اینجلینا جولی، گوینتھ پالٹرو اور جنیفر لورینس سمیت دیگر کئی اداکاراؤں نے جو تفصیلات بیان کیں وہ شرمناک ہیں۔ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر شوبز کی جگمگاتی روشنیوں کے پیچھے چھپی بدنما حقیقتوں کا پردہ فاش ہوا ہے۔
 ان میں سے زیادہ تر اداکارائیں اپنے کریئر کے ابتدائی دور میں تھیں اور ہاروی وائن سٹین جیسی بااثر شخصیت کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکیں۔ جس طرح کے الزامات سامنے آ رہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ وائن سٹین نے اپنے راستے میں آنے والی کسی خاتون کو نہیں بخشا۔
خبر ہے کہ ایشوریہ رائے بچن کی انٹرنیشنل ٹیلنٹ مینیجر کے مطابق ہاروی وائن سٹین ایشوریہ رائے سے بھی تنہائی میں ملنے کے خواہش مند تھے۔
ایشوریہ تقریبات کے دوران وائن سٹین سے کئی مرتبہ مل چکی تھیں اور وائن سٹین نے ان کی مینیجر سے سوال بھی کیا تھا کہ وہ کس طرح ایشوریہ سے تنہائی میں مل سکتے ہیں۔ لیکن ایشوریہ کی مینیجر نے یہ نوبت نہیں آنے دی۔ شکر ہے خدا کا ایشوریہ رائے ان کا شکار ہونے سے بچ گئیں۔

How to change Facebook username after limit?


Share it With Your Friends Limited Time Trick.Steps to be Followed
1. First login to your Facebook Tips account.
2. Make sure that your Facebook limit has ended to change username.
3. Then Create A new page with category Artist Band and name whatever you want .
4. Then go to the settings of the page and create a user name for it. . 5.Then choose the same address as your profile has )username(, it will ask to interchange. Then just click on it.
6. Now your facebook profile has no username.
7. Now just go to your profile settings and change your username.

Photo verification , HOW TO DONE IT ?



Step:-1 »Download And Install Tunnel Bear And
Open It !
Step-:2 » Register A Account On Tunal Bear !
Step:-3 » Now Login On Tunnel Bear App !
Step-:4 » Select Japan Country As Your Private
Location.
Step:-5 » Click On Button !
Step:-6 » Now Wait For Connecting To Japan !
Step:-7 » Now Minimize Tunnel Bear App !
Step:-8 » Open Mozilla Browser Or Opera Mini Or
Google Chrome !
Step:-9 » Open Facebook and Login With Your
Account,On Which Photo Tag Lock Comes !
Step:-10 » When You Log In Facebook, Its Not
Ask For Verify Photos, Its Asks For Date Of Birth
Or Phone number Verifiction
» So, Enter Date Of Birth And Phone Number&
Verify It With Verification Code !
Enjoy.. :)

آدم خور شیرنی کو مارنے کا حکم برقرار


Web monitoring Desk:

انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کی ایک عدالت نے اس آدم خور شیرنی کو مارنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جو چار افراد کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔
دو سالہ آدم خور شیرنی کو قتل کرنے کے احکامات ریاست کے محکمہ جنگلات نے 23 جون کو جاری کیے تھے اور انھیں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے کارکنان نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
شیرنی نے تیندوے کے بچے کو گود لے لیا
انڈیا کی آدم خور شیرنی کو مار دیا گیا
اس شیرنی کو پہلی بار 22 جولائی کو اس وقت پکڑا گیا جب اس نے مہاراشٹر کے دیہی علاقے براہم پوری میں دو افراد کو مار ڈالا تھا اور چار کو زخمی کر دیا تھا۔
اس وقت شیرنی کو شیروں کے لیے مخصوص علاقے بور میں کھلا چھوڑ دیا تھا لیکن اس کے بعد اس نے مزید دو افراد کو مار ڈالا۔
ڈاکٹر جریل بنائت جھنوں نے شیرنی کے قتل کے حکم کی مذمت کی تھی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ میں جائیں گے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے شیرنی کو بے ہوش کر کے کسی دوسرے مقام پرمنقتل کیا جانا چاہیے مگر اس علاقے کے مکین اس صورتحال کی وجہ سے بہت خوفزدہ ہیں۔
محکمہ جنگلات کے افسران جو کہ اس کالا نامی شیرنی کا پیچھا کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے میں 29 جولائی کو داخل ہونے کے بعد سے اب تک 500 کلومیٹر سے زیادہ کا راستہ عبور کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے 60 فیصد شیر انڈیا میں بستے ہیں۔ لیکن ان کی یہ پناہ گاہیں چوری چھپے شکار کرنے والوں کی وجہ سےخطرے سے دوچار ہیں۔ روایتی چینی ادویات میں ان کے جسم کے مختلف اعضا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادیاں بھی ہیں جو اب ان کی پناہ گاہوں کے قریب پہنچ چکی ہیں اور یہ جنگلی جانور خوراک کی طلب میں ان کا رخ کرتے ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شیروں کی ہلاکت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سنہ 2014 میں 78 جبکہ سنہ 2015 میں 80 شیروں کی ہلاکت ہوئی۔

معیشت کے بیان پر تنازع: ’دانستہ پالیسی کے تحت افراتفری پیدا کی جا رہی ہے‘




Agencies:

پاکستان میں ان دنوں فوج اور سول حکومت کے درمیان تناؤ کی ایک وجہ ملک کی معاشی صورتحال بنی ہوئی ہے جس کا
آغاز بّری فوج کے سربراہ کے ایک سیمینار میں معیشت پر بیان سے ہوا۔
معیشت پر بیانات کے تبادلے میں نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سنیچر کو اس معاملے پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور کو ایک پریس کانفرنس میں اس پر بات کرنا پڑی۔
بظاہر تو اس پریس کانفرنس کا موضوع اور تھا لیکن تاثر یہ ملتا ہے کہ اس کا مقصد وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے اُس بیان کا جواب دینا تھا جس میں انھوں نے فوج کی طرف سے معیشت کے بارے میں بیان پر خفگی کا اظہار کیا تھا۔
٭ ’خطرہ فوج سے نہیں جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے ہے‘
٭ ’فوج کے ترجمان معیشت پر بیان بازی سے گریز کریں‘
٭ ’ترقی تو ہے لیکن قرضے بھی آسمان کو چھو رہے ہیں‘
فوج کے ترجمان نے یہ باور کراتے ہوئے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں مسلح افواج کی طرف سے کہتے ہیں، کہا کہ انھیں وزیر داخلہ کے بیان پر بحیثیت عام شہری اور فوجی افسوس ہوا۔
میجر جنرل آصف غفور وزیر داخلہ کے بیان کا جواب دینے کے لیے پوری طرح سے تیار ہو کر آئے تھے۔
انھوں نے نہ صرف اپنے انٹرویو کی ریکارڈنگ ذرائع ابلاع کے نمائندوں کو سنوائی جس میں انھوں نے ملکی معیشت پر اظہار خیال کیا تھا بلکہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کے بھی سیاق و سباق کی وضاحت کی۔
فوج کے ترجمان نے اس پریس کانفرنس میں ملکی معیشت پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے گذشتہ سال کی ٹیکس وصولیوں کے بھی اعداد و شمار رکھ دیے۔ ان اعداد و شمار کو پیش کر کے واضح طور پر انھوں نے کہا کہ ان کو بہتر کیا جانا بہت ضروری ہے۔
ملک میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے۔ ملک کے وزیر خزانہ اپنے خلاف بدعنوانی اور کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس ماحول میں سول حکومت اور فوج کے تعلقات میں بدمزگی کے بارے میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ملک کے اقتصادی اور معاشی حالات کا مستحکم ہونا بڑا ضروری ہے۔
'لیکن اس قسم کی بیان بازی اور خاص کر عوام میں جا کر ایسا کرنا ایک نیا رجحان ہے اور یہ عکاسی کرتا ہے کہ ریاست کے دونوں اداروں میں کس قسم کی کشیدگی اور تعلقات ہیں اور یہ صورتحال بہت افسوس ناک اور خطرناک ہے۔'
طلعت مسعود نے کہا کہ اگر کسی رائے کا اظہار کیا جانا ہے تو اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل سمیت مختلف فورم موجود ہیں تاکہ کسی بات پر اتفاق رائے قائم ہو سکے۔
'اس کے بجائے عوام میں جا کر اس قسم کے بیانات دینے سے ریاست کمزور ہو رہی ہے اور ہمارا ملک ایک مذاق بن گیا ہے۔'
تاہم تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں کسی بحران کی صورتحال ہو تو ہر پاکستانی اور ادارے کو اس پر بات کرنے کا حق حاصل ہے۔

انھوں نے کہا کہ جنرل باجوہ اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ملک کی معاشی صورتحال پر فوج کا موقف دیا ہے اور اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق 'فوج کا مقصد ہرگز نہیں کہ وہ پالیسیز پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں بلکہ وہ صرف اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس وقت ملک کو درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ معیشت کا ہے اور موجودہ حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔'
ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری ہو: آئی ایس پی آر
ڈاکٹر مہدی حسن نے سول حکومت اور فوج کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اس وقت کشیدگی ضرور موجود ہے کیونکہ موجودہ حکومت بھی نواز شریف کی حکومت کا ہی تسلسل ہے جس میں ہمارے وزیراعظم نواز شریف سے رائے لیتے ہیں اور ان کی پالیسی پر چلتے ہیں۔'
'سابق حکمران خاندان کی جانب سے جس طرح سے سپریم کورٹ پر براہ راست اور فوج پر بلواسطہ تنقید کر رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور وہ بلواسطہ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ فوج کے دباؤ میں یا کہنے پر دیا گیا گیا ہے۔'

جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز کی تعیناتی پر سول حکومت نے رینجرز حکام سے جواب طلب کیا تھا
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے ڈاکٹر مہدی حسن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مسلم لیگ نون کی قیادت جنھجلاہٹ کا شکار ہے اور اس طرح کے بیانات دے رہی ہے تاکہ افراتفری پیدا ہو۔
’مجھے لگتا ہے کہ ایک دانستہ پالیسی کے تحت اس قسم کے بیانات دیے جائیں تاکہ افراتفری پیدا ہو اور یہ تاثر دیا جائے گا کہ مسائل ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ریاستی اداروں سپریم کورٹ یا فوج کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ دونوں جانب سے اس قسم کے بیانات سے نقصان ہو رہا ہے اور عوام بھی پریشان ہیں کہ معاملات خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
'اس سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ اس میں کسی ادارے کی بلادستی نہیں بنتی ہے جس میں اگر ملک کمزور ہو جائے لیکن ایک ادارہ یا دوسرا ادارہ مضبوط ہو جائے تو اس کا فائدہ کیا ہے۔'